dinosaur fossils information | real dinosaur fossils | The rise of mammals

 ڈائنو سارز کے ختم ہونے کی ایک اور بڑی وجہ: میملز کا عروج

real dinosaur fossils



ڈائنا سورز نہیں بلکہ ممالیہ جانور  ارتقاء کے دوران آپس میں اہم حریف تھے،  ایک نیا مطالعہ کہتا ہے۔


جب ہم جب ڈائنو سارز کے عظیم الشان اور حیرت انگیز فاسل دیکھتے ہیں، تو ہمیں بہت حیرت ہوتی ہے۔ اور پھر جب انکے متعلق مزید حقائق جان چکے ہوتے ہیں تو اس حیرت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے کہ  قریبا 16 کڑوڑ 50 لاکھ (165 ملین) سال تک یہ جانور زمین پر اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے بعد آج سے ساڑھے چھ کڑوڑ سال قبل فنا کیسے ہوگئے تھے، کہ آج روئے زمین پر سوائے پرندوں کے کوئی بھی ڈائنو سار نہیں بچا؟ لیکن ایک حالیہ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ڈائنو سارز کے اسطرح صفحہ ہستی سے مٹ جانے میں جہاں دوسرے فیکٹرز نے اپنا اہم کردار ادا کیا، وہیں میملز جیسے چھوٹے، تیز اور چالاک جانداروں کا ارتقاء بھی انکی سلطنت کو تباہ کرنے کی ایک بڑی وجہ بنی۔


ممالیہ جانور پہلی بار کم از کم 170 ملین سال پہلےکرہ ارض پر  نمودار ہوئے اور ڈائنوسار کے درمیان اس وقت تک رہتے تھے جب تک کہ ایک تباہ کن  شہاب ثاقب کے اثرات کے بعد پرندوں کے علاوہ تمام ڈایناسور ہلاک نہ ہو گئے۔ صرف پرندے جو ڈائنوسارز کی نئی شکل تھے، وہی بچ گئے۔

dinosaur fossils information



یہ نیا مطالعہ اس بات کا بھی  جواب دیتا ہے کہ کیوں نا اڑنے والے  ڈائنوسار کے معدوم ہونے کے بعد،صرف  ممالیہ ہی متنوع نظر آتے ہیں اور نئی خوراک اور زندگی کے طریقوں کو تلاش کرتے ہیں۔


آکسفورڈ یونیورسٹی اور برمنگھم یونیورسٹی کے محققین کے ذریعہ کی گئی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ قدیم زمانے میں ممالیہ جانور، ڈائنوسار کے بڑے پیمانے پر معدوم ہونے سے پہلے اور بعد میں ان کی سلطنت کے اہم حریف تھے۔  اور ڈائنو سارز کے اپنی غذا کو تلاش کرنے اور قابل رہائش جگہ حاصل کرنےمیں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ کرنٹ بائیولوجی جریدے میں 17 مئی  2021 کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈائنوسار نے ممالیہ جانوروں کو نہیں روکا  تھا، بلکہ ممالیہ جانوروں نے بڑھ کر ان ان جگہوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا جہاں پہلے ڈائنوسارز رہا کرتے تھے ۔ مطالعہ میں، محققین نے  مختلف میملز  کے فوسلز  میں پائے جانے والے  تغیرات کا تجزیہ کرنے کے لیے نئے طریقے استعمال کیے ہیں۔


ایک تحقیقی جرنل scitechdaily.com، جس نے یہ رپورٹ شائع کی ، نے رپورٹ کیا کہ  یہ مطالعہ جدید ترین شماریاتی ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے ارتقاء کے بارے میں پرانے اور قائم شدہ نظریات کی جانچ کی اہمیت پر بھی توجہ  دلاتا ہے۔


آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک محقق اور اس تحقیق کے شریک مصنفین میں سے ایک ڈاکٹر ایلسا  پینسرولی  Elsa Panciroli نے کہا کہ ڈائنوسار کے زمانے میں ممالیہ جانوروں کی بہت سی  معدوم شدہ قسمیں تھیں۔ ان میں سے کوئی بھی - بشمول تیراکی، گلائڈنگ اور زمین میں کھوہ بنانے والی  انواع (چوہے، خرگوش، وغیرہ)   کا تعلق جدید گروہوں سے نہیں تھا۔ جیسے ممالیہ جانوروں کے  ارتقائی درخت میں، وہ پہلے کی شاخوں سے تعلق رکھتے تھے۔


غیر ایویئن ڈائنوسار کے  خاتمہ کے ساتھ ہی ان میں سے زیادہ تر ممالیہ معدوم ہو گئے۔ اس وقت، جدید ممالیہ جانوروں  نے سائز میں  بڑے ہونا شروع کیا اور نئی خوراک اور زندگی کے طریقوں کی تلاش کی۔ ڈاکٹر پنسیرولی نے مزید کہا کہ معدومیت سے پہلے، "یہ ممالیہ جانوروں کی ابتدائی شاخیں تھیں جنہوں نے جدید ممالیہ کو ان بچے کچھے ڈائنو سارز کا مقابلہ کرتے ہوئے اس  دلچسپ ماحولیاتی کرداروں سے انکو دور رکھا۔"


محققین نے ممالیہ جانوروں کے مختلف گروہوں پر رکھی ہوئی ارتقائی "حدود" کی نشاندہی کی۔ محققین کے مطابق، ارتقائی "حدود" ممالیہ جانوروں کے ان مختلف گروہوں پر رکھی گئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ وہ دوسرے جانوروں کے ساتھ مقابلے کی وجہ سے کہاں سے معدوم  ہو رہے ہیں۔ تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جدید ممالیہ جانوروں کے آباؤ اجداد پر سب سے بڑی رکاوٹ شاید ڈائنوسار نے نہیں بلکہ ان کے قریبی رشتہ داروں یعنی قدیم ممالیہ نے ہی نے ڈالی  تھی۔


چونکہ ممالیہ انواع  ایک دوسرے کو قابو کیے ہوئے تھیں، اس لیے آنے والے  جدید ممالیہ کی کامیابی کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ دوسرے گروہوں کو معدوم ہونے دیں، یعنی ممالیہ کی اپنی بقا کے لیے ڈائنو سارز کا فنا ہونا ضروری تھا، کیونکہ انکی خالی ہونے والی جگہوں پر ہی ممالیہ جانور اپنی موجودگی کرپاتے۔ ڈائنو سارز کیونکہ زرا غبی، کند زہن ، سست اور بھدے جانور ہوا کرتے تھے، اس لیے وہ میملز جیسے اسمارٹ، تیز ، چالاک اور  انتہائی سوشل جانوروں جیسی انواع کا مقابلہ نہ کرسکے اور جلد ہی فنا ہوگئے۔   ڈایناسور کے معدوم ہونے کے بعد، سب سے چھوٹے اور سب سے بڑے  ممالیہ  نے جیسے ان رکاوٹوں سے ایک  رہائی ظاہر کی،  اور بہت تیز پھر انکا ارتقاء ہوا۔ اس  نئی تحقیق نے یہ تجویز کیا کہ جانوروں کے  سائز نے  ممالیہ  کی کامیابی میں بہت کم  ہم کردار ادا کیا ہے۔ اسطرح ایک بار پھر ڈارون کے نظریے "Survival of the fittest۔ قانون بقائے اصلح" کی تصدیق ہوتی ہے اور یہ عالمگیر اصول ثابت ہوتا ہے کہ اس پوری کائنات میں صرف وہی چیز بقا پاسکتی ہے جو انتہائی اپنے ماحول کے حساب سے فٹ ہو اور ایڈجسٹ ہوسکے۔ ناکارہ اور عیب والی چیز کا وجود ہمیشہ مٹ جاتا ہے۔


ترجمہ، تحقیق اور اضافہ جات:

#Humair_Yousuf 

#سائنسکیدنیا


Post a Comment

Previous Post Next Post